کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
by صفی لکھنوی

کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
بہ حسرت سوئے چرخ فتنہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

نظر حسن آشنا ٹھہری وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جب آنکھیں بند کیں تصویر جاناں دیکھ لیتے ہیں

شب وعدہ ہمیشہ سے یہی معمول ہے اپنا
سحر تک راہ شوخ سست پیماں دیکھ لیتے ہیں

خدا نے دی ہیں جن روشن دلوں کو دوربیں نظریں
سواد کفر میں وہ نور ایماں دیکھ لیتے ہیں

دل بیتاب کا اصرار مانع شرم رسوائی
بچا کر سب کی نظریں سوئے جاناں دیکھ لیتے ہیں

وہ خود سر سے قدم تک ڈوب جاتے ہیں پسینے میں
بھری محفل میں جو ان کو پشیماں دیکھ لیتے ہیں

ٹپک پڑتے ہیں شبنم کی طرح بے اختیار آنسو
چمن میں جب کبھی گل ہائے خنداں دیکھ لیتے ہیں

نگاہ ناز کی مستانہ یہ نشتر زنی کیسی
بوقت فصد رگ زن بھی رگ جاں دیکھ لیتے ہیں

اسیران ستم کے پاسبانوں پر ہیں تاکیدیں
بدلتے ہیں جو پہرا قفل زنداں دیکھ لیتے ہیں

صفیؔ رہتے ہیں جان و دل فدا کرنے پہ آمادہ
مگر اس وقت جب انساں کو انساں دیکھ لیتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse