کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
by شکیب جلالی

کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی

چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی

یہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے
کہ دشت شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی

مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں
افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیار چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse