کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
by مصطفٰی خان شیفتہ

کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم

شاید رقیب ڈوب مریں بحرِ شرم میں
ڈوبیں گے موجِ اشک کی طغیانیوں میں ہم

محتاجِ فیضِ نامیہ کیوں ہوتے اس قدر
کرتے جو سوچ کچھ جگر افشانیوں میں ہم

پہنچائی ہم نے مشق یہاں تک کہ ہو گئے
استادِ عندلیب، نواخوانیوں میں ہم

غیروں کے ساتھ آپ بھی اٹھتے ہیں بزم سے
لو میزبان بن گئے مہمانیوں میں ہم

جن جن کے تو مزار سے گزرا وہ جی اٹھے
باقی رہے ہیں ایک ترے فانیوں میں ہم

گستاخیوں سے غیر کی ان کو ملال ہے
مشہور ہوتے کاش ادب دانیوں میں ہم

دیکھا جو زلفِ یار کو تسکین ہو گئی
یک چند مضطرب تھے پریشانیوں میں ہم

آنکھوں سے یوں اشارۂ دشمن نہ دیکھتے
ہوتے نہ اس قدر جو نگہبانیوں میں ہم

جو جان کھو کے پائیں تو فوزِ عظیم ہے
وہ چیز ڈھونڈتے ہیں تن آسانیوں میں ہم

پیرِ مغاں کے فیضِ توجہ سے شیفتہ
اکثر شراب پیتے ہیں روحانیوں میں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse