کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا
by شاہ مبارک آبرو

کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا
تباہے حال تری زلف کے اسیروں کا

ڈھلے ہے جس پہ دل تس کا کیا ہے ظاہر اسم
وہی ہے وہ کہ جو مرجع ہے ان ضمیروں کا

ہر ایک سبز ہے ہندوستان کا معشوق
بجا ہے نام کہ بالم رکھا ہے کھیروں کا

مرید پیٹ کے کیوں نعرہ زن نہ ہوں ان کا
برا ہے حال کہ لاگا ہے زخم پیروں کا

برہ کی راہ میں جو کوئی گرا سو پھر نہ اٹھا
قدم پھرا نہیں یاں آ کے دست گیروں کا

وہ اور شکل ہے کرتی ہے دل کو جو تسخیر
عبث ہے شیخ ترا نقش یہ لکیروں کا

سیلی میں جوں کہ لٹکا ہو آبروؔ یوں دل
سجن کی زلف میں لٹکا لیا فقیروں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse