کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
by محمد ابراہیم ذوق

کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
چل بسا وہ آج سب ہستی کا ساماں چھوڑ کر

طفل اشک ایسا گرا دامان مژگاں چھوڑ کر
پھر نہ اٹھا کوچۂ چاک گریباں چھوڑ کر

کیونکہ نکلے تیرا اس کا دل میں پیکاں چھوڑ کر
جائے بیضے کو کہاں یہ مرغ پراں چھوڑ کر

جس نے ہو لذت اٹھائی زخم تیغ عشق کی
کب وہ مرہم دان کو ڈھونڈے نمک داں چھوڑ کر

صید دل کو کیونکہ چھوڑے جب کہ دکھلا دے نہ تو
مچھلیاں دست حنائی میں مری جاں چھوڑ کر

سرد مہری سے کسی کی آگے ہی جی سرد ہے
یاں سے ہٹ جا دھوپ اے ابر خراماں چھوڑ کر

دیکھیے کیا ہو کہ ہے اب جان کے پیچھے پڑی
دل کو اے کافر تری زلف پریشاں چھوڑ کر

اے دل اس کے تیر کے ہم راہ سینے سے نکل
ورنہ پچھتائے گا تو یہ ساتھ ناداں چھوڑ کر

کیوں نہ رم کر جائیں آہو ایسے وحشی سے ترے
شیر بھاگیں جس کے نالوں سے نیستاں چھوڑ کر

سرخی پاں دیکھ لے زاہد جو دنداں پر ترے
اٹھ کھڑا ہو ہاتھ سے تسبیح مرجاں چھوڑ کر

پیش خیمہ لے کے نکلا گرد باد دور رو
ہے جو سرگرم سفر تن کو مری جاں چھوڑ کر

گر خدا دیوے قناعت ماہ دوہفتہ کی طرح
دوڑے ساری کو کبھی آدھی نہ انساں چھوڑ کر

ساغر دل بیچتا آیا ہوں کھو مت ہاتھ سے
چوکتا ہے کیوں یہ جنس دست گرداں چھوڑ کر

کام یہ تیرا ہی تھا رحمت ہو اے ابر کرم
ورنہ جائے داغ عصیاں میرا داماں چھوڑ کر

پڑھ غزل اے ذوقؔ کوئی گرم سی اب تو نہ جا
جانب مضمون طرز تفتہ جاناں چھوڑ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse