کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
by آفتاب شاہ عالم ثانی

کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
کل پڑے گی نہ مجھے مجھ سے یہ کل کل نہ کرو

کہیں جلا دے نہ اسے شعلۂ آہ عاشق
پلکوں کی ٹٹی کے تئیں آنکھوں کی اوجھل نہ کرو

کر چکی تیغ نگاہ کام تو پل ہی میں تمام
تیر پلکوں کا مقابل مرے پل پل نہ کرو

اس کو ہر شب ہے زوال اس کو نہیں ہے کچھ نقص
بدر کو چہرے سے اس کے متمثل نہ کرو

دکھ نہ پاوے کہیں وہ نازنیں گردن پیارے
تکیہ زنہار سر بالش مخمل نہ کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse