کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا
by مصطفٰی خان شیفتہ

کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا
ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا

یہ بت کہ جائے شیب ہے، جب تھا نقاب میں
عہدِ شباب اور بتوں کا زمانہ تھا

معلوم ہے ستاتے ہو ہر اک بہانے سے
قصداً نہ آئے رات، حنا کا بہانہ تھا

حسرت سے اس کے کوچے کو کیوں کر نہ دیکھئے
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

کیا مے کدوں میں ہے کہ مدارس میں وہ نہیں
البتہ ایک واں دلِ بے مدعا نہ تھا

ساقی کی بے مدد نہ بنی بات رات کو
مطرب اگرچہ کام میں اپنے یگانہ تھا

کچھ آج ان کی بزم میں بے ڈھب ہے بندوبست
آلودہ مے سے دامنِ بادِ صبا نہ تھا

دشمن کے فعل کی تمہیں توجیہ کیا ضرور
تم سے فقط مجھے گلۂ دوستانہ تھا

کل شیفتہ سحر کو عجب حالِ خوش میں تھے
آنکھوں میں نشہ اور لبوں پر ترانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse