کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
by ریاض خیرآبادی

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
اے میں قربان وفا وعدۂ فردا ہوگا

حشر کے روز بھی کیا خون تمنا ہوگا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہوگا

ہم نہیں جانتے ہیں حشر میں کیا کیا ہوگا
یہ خوشی ہے کہ وفا وعدۂ فردا ہوگا

تو بتا دے ہمیں صدقے ترے اے شان کرم
ہم گنہ گار ہیں کیا حشر ہمارا ہوگا

لاکھ پردوں میں کوئی اے نگہ شوق رہے
دیکھ لے گا جو کوئی دیکھنے والا ہوگا

ایسی لے دے ہوئی آ کر کہ الٰہی توبہ
ہم سمجھتے تھے کہ محشر میں تماشا ہوگا

سعی ہر گام میں کی ہے یہ سمجھ کر ہم نے
وہی ہوگا جو مشیت کا تقاضا ہوگا

پی کے آیا عرق شرم جبیں پر جو کبھی
چہرے پر بادہ کشو نور برستا ہوگا

رہنے دے گا نہ دم ذبح کوئی حلق کو خشک
میکدے میں ہمیں اتنا تو سہارا ہوگا

مجھے کیا ڈر ہے کہ ہوں گے مرے سرکار شفیع
مجھے کیا ڈر ہے کہ تو بخشنے والا ہوگا

شرم عصیاں سے نہیں اٹھتی ہیں پلکیں اپنی
ہم گنہ گار سے کیا حشر میں پردا ہوگا

کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاضؔ
زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse