کل سیں بے کل ہے مرا جی یار کوں دیکھا نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل سیں بے کل ہے مرا جی یار کوں دیکھا نہ تھا
by سراج اورنگ آبادی

کل سیں بے کل ہے مرا جی یار کوں دیکھا نہ تھا
کیوں نہ ہووے بیتاب دل دل دار کوں دیکھا نہ تھا

ہے بجا گر ہووے غزل خواں مثل بلبل دل مرا
نوبہار گلشن دیدار کوں دیکھا نہ تھا

کیونکہ ہووے زاہد خود بیں مرید زلف یار
اس نے ساری عمر میں زنار کوں دیکھا نہ تھا

اب مشبک ہو گیا اس تیر مژگاں کے طفیل
جس دل نازک نے نوک خار کوں دیکھا نہ تھا

ابرو پر چیں کوں تیرے دیکھ دل حیراں ہوا
کیا مگر شمشیر جوہر دار کوں دیکھا نہ تھا

سینۂ گل دار میرا اس کوں آیا ہے پسند
یار نے شاید کبھی گل زار کوں دیکھا نہ تھا

دیکھ اشک گرم کوں میرے کہا اس نے سراجؔ
میں کبھی اس ابر آتش بار کوں دیکھا نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse