کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا
by نظیر اکبر آبادی

کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا
پانی چھڑک کے خواب سے فتنے کو پھر جگا دیا

اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا

پھر کے نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے رو بہ رو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا

میرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا میں نے اسے ہنسا دیا

میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا چاہا ادھر بڑھا دیا

تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وو تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا

گزرے جو سوئے خانقاہ واں بھی بہ شکل جانماز
اہل صلوٰۃ و زہد کو فرش کیا بچھا دیا

نکلے جو راہ دیر سے اک ہی نگاہ مست میں
گبر کا صبر کھو دیا بت کو بھی بت بنا دیا

شکوہ ہمارا ہے بجا مفت بروں سے کس لیے
ہم نے تو اپنا دل دیا ہم کو کسی نے کیا دیا

سن کے ہمارے حال کا یار نے اک سخن نظیرؔ
ہنس کے کہا کہ بس جی بس تم نے تو سر پھرا دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse