کل جو تم ایدھر سے گزرے ہم نظر کر رہ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل جو تم ایدھر سے گزرے ہم نظر کر رہ گئے
by میر حسن دہلوی

کل جو تم ایدھر سے گزرے ہم نظر کر رہ گئے
جی میں تھا کچھ کہیے لیکن آہ ڈر کر رہ گئے

جب نہ کچھ بس چل سکا اپنا تو پھر حسرت سے ہائے
دیکھ کر منہ کو ترے اک آہ بھر کر رہ گئے

سر بہت پٹکا قفس میں اپنا ہم نے ہم صفیر
کوئی نہ پہنچا داد کو فریاد کر کر رہ گئے

نامہ بر کی یا کبوتر کی کہ دل کی رکھیے آس
اپنے تو یاں سے گئے جو واں وہ مر کر رہ گئے

کل کسی کا ذکر خیر آیا تھا مجلس میں حسنؔ
اس دل بے تاب پر ہم ہاتھ دھر کر رہ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse