کل تک اس کی وہ مہربانی تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
by مرزا جواں بخت جہاں دار

کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
آج دیکھا تو سرگرانی تھی

کیا غمگین اس نے ہم کو نت
جس کے ملنے کی شادمانی تھی

گو بہ ظاہر وہ غیر سے تھا دو چار
ہم سے بھی دوستی نبھانی تھی

جل بجھے تب کھلا پتنگوں پر
شمع اور دوستی زبانی تھی

آ گیا رحم اس کے دل میں آہ
ہم نے یوں اپنی مرگ ٹھانی تھی

سو گیا سنتے ہی وہ غم کی مرے
سرگزشت اس کے تئیں کہانی تھی

نہ جہاں دارؔ جانے تھا اے میرؔ
دوستی مدعیٔ جانی تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse