کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا
Appearance
کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا
تو اس نے پڑھ کے وہ نامہ بہت عتاب لکھا
جبیں کو مہ جو لکھا تو کہا ہو چیں بہ جبیں
یہ کیسی اس کی سمجھ تھی جو ماہتاب لکھا
چمکتے دانتوں کو گوہر لکھا تو ہنس کے کہا
ستارے اڑ گئے تھے جو در خوش آب لکھا
لکھا جو مشک خطا زلف کو تو بل کھا کر
کہا خطا کی جو یہ حرف نا صواب لکھا
گلاب عرق کو لکھا تو یہ بولا ناک چڑھا
اسے نہ عطر میسر تھا جو گلاب لکھا
جگر کباب لکھا اپنا تو کہا جل کر
بھلا جی کیا میں شرابی تھا جو کباب لکھا
حساب شوق کا دفتر لکھا تو جھنجھلا کر
کہا میں کیا متصدی تھا جو حساب لکھا
جو بے حساب لکھا اشتیاق دل تو کہا
وہ کس حساب میں ہے یہ بھی بے حساب لکھا
ہوئے جو رد و بدل ایسے کتنے بار نظیر
تو اس نے خط کا ہمارے نہ پھر جواب لکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |