کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا
by نظیر اکبر آبادی

کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا
تو اس نے پڑھ کے وہ نامہ بہت عتاب لکھا

جبیں کو مہ جو لکھا تو کہا ہو چیں بہ جبیں
یہ کیسی اس کی سمجھ تھی جو ماہتاب لکھا

چمکتے دانتوں کو گوہر لکھا تو ہنس کے کہا
ستارے اڑ گئے تھے جو در خوش آب لکھا

لکھا جو مشک خطا زلف کو تو بل کھا کر
کہا خطا کی جو یہ حرف نا صواب لکھا

گلاب عرق کو لکھا تو یہ بولا ناک چڑھا
اسے نہ عطر میسر تھا جو گلاب لکھا

جگر کباب لکھا اپنا تو کہا جل کر
بھلا جی کیا میں شرابی تھا جو کباب لکھا

حساب شوق کا دفتر لکھا تو جھنجھلا کر
کہا میں کیا متصدی تھا جو حساب لکھا

جو بے حساب لکھا اشتیاق دل تو کہا
وہ کس حساب میں ہے یہ بھی بے حساب لکھا

ہوئے جو رد و بدل ایسے کتنے بار نظیر
تو اس نے خط کا ہمارے نہ پھر جواب لکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse