کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
by صفدر مرزا پوری

کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
نہ پوچھو ہم صفیرو ہم سے چھوٹا آشیاں کیونکر

ذرا دیکھیں بدل جاتا ہے دور آسماں کیونکر
کسی کے حال پر ہوتا ہے کوئی مہرباں کیونکر

ہمیں تو غم سے اتنی بھی نہیں فرصت کہ یہ سوچیں
محبت میں ہوا کرتا ہے کوئی شادماں کیونکر

کسی پر عمر بھر کی کس طرح مشق ستم تم نے
ذرا سوچو تو دل میں اور لو گے امتحاں کیونکر

چمن میں ایک مدت ہم نے مشق گل فشانی کی
قفس تک آتے آتے آ گئی طرز فغاں کیونکر

جو حالت دل کی ہے وہ رنگ رخ اڑ اڑ کے کہتا ہے
چھپائیں ہم اسے بھی صورت درد نہاں کیونکر

کلیجے کی طرح جس کو جگہ دی ہم نے سینے میں
وہی دل بن گیا ہے آج ان کا ہم زباں کیونکر

کسی دن آ کے آنکھوں سے ذرا تم دیکھ تو لیتے
کیا کرتا ہے کوئی ہجر میں آہ و فغاں کیونکر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse