کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا
by نظیر اکبر آبادی

کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا
تو میں صنم کے لبوں سے مل کر عجب ہی عیش مدام کرتا

جو پاتا لذت بسان مستاں مے محبت سے تیری زاہد
تو خانقہ سے نکل کے اپنی وہ میکدے میں قیام کرتا

وہ بزم اپنی تھی مے کشی کی فرشتے ہو جاتے مست و بے خود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا

جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا نہ شب بتاتا نہ صبح لاتا نہ شام کرتا

وہ بزم اپنی تھی مے خوری کی فرشتے ہو جاتے مست و بے خود
جو شیخ جی بچ کے واں سے آتے تو میں پھر ان کو سلام کرتا

نظیرؔ آخر کو ہار کر میں گلی میں اس کی گیا تھا بکنے
تماشا ہوتا جو مجھ کو لے کر وہ شوخ اپنا غلام کرتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse