کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط
by ولی عزلت

کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط
کر لیا کعبے نے بھی کے دن بتاں سے اختلاط

بندہ اس بلبل کا ہوں جو بوئے گل کے واسطے
گرم رکھے ہائے ہر خار خزاں سے اختلاط

خاکساروں کی ہے الفت رہروان عشق سے
جیسے گرد راہ کا ہے کارواں سے اختلاط

کیوں نہ ہووے پختہ و بر جستہ روشن دل کا شعر
دود و شعلے سا سخن کو ہے زباں سے اختلاط

دل شکن کے واسطے دست دعا عزلتؔ اٹھائے
جیسے غنچے کا نسیم گلستاں سے اختلاط

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse