کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
by داغ دہلوی

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زبان کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے

جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے

سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے

کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse