کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں
by منیرؔ شکوہ آبادی

کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں
اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں

پھرتے ہیں کوچۂ بت قدسی سرشت میں
دیوانے لاتیں مار رہے بہشت میں

کفارۂ شراب میں دیتا ہوں نقد ہوش
سرگرم ہوں تلافیٔ اعمال زشت میں

اکثر جزائے سجدہ میں کھانی ہیں ٹھوکریں
لکھا ہے کیا خط کف پا سر نوشت میں

حوروں سے گرمیاں جو کہوں اس شریر کی
لگ جائے آگ آتش گل سے بہشت میں

سنتی ہے روز نغمۂ زنجیر عاشقاں
وہ زلف بھی ہے سلسلۂ اہل چشت میں

زنداں سے آنکھیں سینکنے اس گل کے گھر گئے
دوزخ سے آگ لینے چلے ہم بہشت میں

بیگانے اک ہمیں نظر آئے پس فنا
بے دردوں کا ہجوم ہے باغ بہشت میں

بت خانے میں سفیدیٔ حسن فرنگ ہے
گرجے کی روشنی ہے سواد کنشت میں

جل جل کے خاک ہوتے ہیں بے اشک و آہ ہم
آب و ہوا نہیں ہے ہماری سرشت میں

گرمی میں تیرے کوچہ نشینوں کے واسطے
پنکھے ہیں قدسیوں کے پروں کے بہشت میں

سونا کساؤں اشرفی داغ سجدہ کا
سنگ محک لگاؤں بنائے کنشت میں

بجلی چمک گئی جو ہنسی میں پھڑک گئے
شوخی بھری ہوئی ہے تمہاری سرشت میں

تصویریں تیری دست حنائی کی لے گئے
چھاپے لہو کے ہم نے لگائے بہشت میں

کرتی ہیں خون چرخ بتوں کی تعلیاں
رنگ شفق لگاتی ہے سقف کنشت میں

ابر بہار جوہر شمشیر یار تھے
گلہائے زخم کھل گئے اردی بہشت میں

تقدیر میں ہے تیری دہان و کمر کا عشق
سر نہاں لکھا ہے مری سر نوشت میں

دی جان ایک حور کے بوسے کی چاٹ پر
قسمت نے مجھ کو زہر دیا ہے بہشت میں

چوروں سے گفتگوئے خط سبز یار ہے
طوطی کسی کا بول رہا ہے بہشت میں

ادنیٰ غلام شاہ ولایت ہوئے منیرؔ
دشت نجف کی خاک ہے میری سرشت میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse