کعبہ بھی ہے ٹوٹا ہوا بت خانہ ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کعبہ بھی ہے ٹوٹا ہوا بت خانہ ہمارا
by شاد عظیم آبادی

کعبہ بھی ہے ٹوٹا ہوا بت خانہ ہمارا
یا رب رہے آباد یہ ویرانہ ہمارا

باطن کی طرح پاک ہے خم خانہ ہمارا
کیوں کر نہ اچھوتا رہے پیمانہ ہمارا

جو شمع ہوا کرتی ہے روشن سر بازار
اس شمع پہ گرتا نہیں پروانہ ہمارا

ساقی ترا مے خانہ رہے حشر تک آباد
بھر جاتا ہے کشکول گدایانہ ہمارا

بہہ جائے گا اس بزم میں اک فیض کا دریا
آتا ہے چھلکتا ہوا پیمانہ ہمارا

چل سوئے عدم چل ہمیں کیا عذر ہے اے موت
تیار ہے سامان غریبانہ ہمارا

بن جاتا ہے پھر شیخ کا بھی مرشد کامل
ڈگتا نہیں پیتا ہے جو پیمانہ ہمارا

کس زلف کو سلجھائیں رقیبان سیہ کار
چھوتا نہیں اس زلف کو پھر شانہ ہمارا

فریاد کناں ہیں کسی پازیب کے دانے
توڑے کہیں زنجیر نہ دیوانہ ہمارا

خاروں سے یہ کہہ دو کہ گل تر سے نہ الجھیں
سیکھے کوئی انداز شریفانہ ہمارا

تاثیر نہ ہو شادؔ تو دینا ہمیں الزام
کچھ دیر تو سن واعظ حکیمانہ ہمارا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse