کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز
by مرزا محمد رفیع سودا

کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز
جا بجا سوت ہیں پانی کے تا خاک ہنوز

گل زمیں سے جو نکلتا ہے برنگ شعلہ
کون جاں سوختہ جلتا ہے تہ خاک ہنوز

ایک دن گھیر میں دامن کا ترے دیکھا تھا
گرد پھرتے ہیں گریباں کے مرے چاک ہنوز

جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا
باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز

باغ میں جب سے گیا تھا تو خمار آلودہ
گل ہیں خمیازے میں انگڑائی میں ہیں تاک ہنوز

زخم دل پر ہے مرے تیغ جنوں کا ناصح
تو گریبان کا ناداں سیے ہے چاک ہنوز

کیوں کے سوداؔ میں کروں وصف بنا گوش اس کا
کی نہیں آب گہر سے یہ زباں پاک ہنوز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse