کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
by صفدر مرزا پوری

کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
وہ جو یوں بے سر و سامان چلے آتے ہیں

غیر کے ملنے کی تاکید ہے ہر خط میں مجھے
کس قیامت کے یہ فرمان چلے آتے ہیں

تم جو نازک ہو تو کیا آ نہیں سکتے دل میں
آنکھ کی راہ بھی انسان چلے آتے ہیں

گھر سے باہر نکل آیا نہ ہو وہ پردہ نشیں
لوگ کیوں چاک گریبان چلے آتے ہیں

رشک دشمن کبھی دل میں ہے خیال غم دوست
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں

آپ غربت میں نہ گھبرائیے اتنا صفدرؔ
دیکھیے غیب سے سامان چلے آتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse