کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں
by شاہ مبارک آبرو

کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں
کہ دیکھیں مکھ ترا سنبھال انکھیاں

سرمہ سیتی بنا سیاہ برن
آج دل کوں ہوئی ہیں کال انکھیاں

رقص انجھواں کا بے اصول نہیں
کف مژگاں سوں دے ہیں تال انکھیاں

جب اٹھاتی ہیں گریہ سیں طوفاں
کف دریا کریں رومال انکھیاں

صید کرنے کوں دل کے مژگاں سوں
روپتے ہیں بنا کے جال انکھیاں

دل کوں اک تل نہیں مرے آرام
لگی ہیں جب سوں تیرے نال انکھیاں

دل کی خونیں اگر نہیں تو کیوں
اس قدر ہیں تمہاری لال انکھیاں

تیر مژگاں کمان ابرو سیں
مارتی ہیں جگر میں بھال انکھیاں

آبروؔ جب کبھی نگاہ کریں
تب لے جاں تن سیں جی نکال انکھیاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.