کس کی آنکھوں کا لیے دل پہ اثر جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کی آنکھوں کا لیے دل پہ اثر جاتے ہیں
by اختر شیرانی

کس کی آنکھوں کا لیے دل پہ اثر جاتے ہیں
مے کدے ہاتھ بڑھاتے ہیں جدھر جاتے ہیں

دل میں ارمان وصال آنکھ میں طوفان جمال
ہوش باقی نہیں جانے کا مگر جاتے ہیں

بھولتی ہی نہیں دل کو تری مستانہ نگاہ
ساتھ جاتا ہے یہ مے خانہ جدھر جاتے ہیں

پاسبانان حیا کیا ہوئے اے دولت حسن
ہم چرا کر تری دزدیدہ نظر جاتے ہیں

پرسش دل تو کجا یہ بھی نہ پوچھا اس نے
ہم مسافر کدھر آئے تھے کدھر جاتے ہیں

چشم حیراں میں سمائے ہیں یہ کس کے جلوے
طور ہر گام پہ رقصاں ہیں جدھر جاتے ہیں

جس طرح بھولے مسافر کوئی ساماں اپنا
ہم یہاں بھول کے دل اور نظر جاتے ہیں

کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
راہ میں چھین کے دل کہتے ہیں گھر جاتے ہیں

اگلے وقتوں میں لٹا کرتے تھے رہرو اکثر
ہم تو اس عہد میں بھی لٹ کے مگر جاتے ہیں

فیض آباد سے پہنچا ہمیں یہ فیض اخترؔ
کہ جگر پر لیے ہم داغ جگر جاتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse