کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
by مرزا علی لطف

کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دے جو سبو ٹوٹ گیا

کیجو اس زلف کو مشاط سمجھ کر شانہ
لاکھ دل ٹوٹے اگر ایک وہ مو ٹوٹ گیا

کچھ خبر ہے تجھے کہتے ہیں ترے زخمی کا
آج پھر چاک کا سینے کے رفو ٹوٹ گیا

فلک اس دل شکنی کا تو مزا دیکھے گا
کوئی دل گر کبھی اے عربدہ جو ٹوٹ گیا

تھی مریدوں کے لیے قلب کے صدمے کی دلیل
شیخ کا رقص میں سم پر جو وضو ٹوٹ گیا

دھیان اس شیشے کا رکھنا کہ نہ ہوگا پیوند
دل مری جان اگر یک سر مو ٹوٹ گیا

اس خود آرا کے رہا ہاتھ میں نت آئینہ
غم سے آئینہ دل ہائے نہ تو ٹوٹ گیا

محتسب نے تو خرابات میں کی خوں ریزی
پر سر رند پہ شب مے کا کدو ٹوٹ گیا

دیکھنا تار محبت کہ ہے مشکل پھر سانٹھ
رشتۂ دوستی اے لطفؔ کبھو ٹوٹ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse