کس میں خوبی ہے جلانے میں کہ جل جانے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس میں خوبی ہے جلانے میں کہ جل جانے ہیں  (1933) 
by راج بہادر سکسینہ اوجؔ

کس میں خوبی ہے جلانے میں کہ جل جانے ہیں
شمع میں سوز زیادہ ہے کہ پروانے میں

لذت درد کو اک خار میسر نہ ہوا
دل کا کانٹا نہ نکالا گیا ویرانے میں

میرے پر درد بیاں نے مجھے مرنے نہ دیا
موت کو نیند سی آئی مرے افسانے میں

آب کوثر تو نہ تھا چشم سیہ میں تیری
پڑ گئی جان تجھے دیکھ کے دیوانے میں

حق پرستی مری کعبہ سے صدا دیتی ہے
دل میں کر یاد خدا بیٹھ کے بت خانے میں

غم غلط کرتا ہوں پی پی کے جگر کے آنسو
شبنمی مے ہے مری آنکھ کے پیمانے میں

مجھ کو جب ساقیٔ مغرور نے ساغر نہ دیا
اوجؔ آنسو نکل آئے مرے میخانے میں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse