کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
by آرزو لکھنوی

کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
آگے تو ہیں راہیں اور کٹھن دل پہلے ہی ٹھوکر کھا کے گرا

آگے جو بڑھا تھرائے قدم وہ ہنس جو دیے شرما کے گرا
بے ہوش نہیں ہشیار تھا میں اٹھنے کا سہارا پا کے گرا

دل شوق کے جوش میں دوڑ چلا اور جوش تو ہوتا ہے اندھا
در بند پڑا تھا قسمت کا ٹکر جو لگی تیورا کے گرا

جتنی بھی دل کی ضرورت تھی بس اتنی ہی ہمت و طاقت تھی
رستے کی کھکھیڑیں جھیل گیا پاس آتے ہی میں چکرا کے گرا

کیا عشق کی منزل بھی ہے کڑی بندھ بندھ کر ہمت ٹوٹ گئی
جو ایک قدم چل کر سنبھلا وہ دو قدم آگے جا کے گرا

سلگی ہوئی ہے غم کی بھٹی دل کیوں نہ پگھل کے بنے پانی
جو قطرہ آنسو ہو کے بہا لہرا کے چلا تیورا کے گرا

وہ نالہ فلک سے ٹکرایا وہ آرزوؔ اک تارا ٹوٹا
دشمن کی طرف جو لپکا تھا شعلہ وہ مجھی پر آ کے گرا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse