کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ
by نظم طباطبائی

کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ
کس کو یہ ڈھونڈتے ہیں برہنہ سر دونوں ساتھ

کیسی یارب یہ ہوا صبح شب وصل چلی
بجھ گیا دل مرا اور شمع سحر دونوں ساتھ

بعد میرے نہ رہا عشق کی منزل کا نشاں
مٹ گئے راہرو و راہ گزر دونوں ساتھ

اے جنوں دیکھ اسی صحرا میں اکیلا ہوں میں
رہتے جس دشت میں ہیں خوف و خطر دونوں ساتھ

مجھ کو حیرت ہے شب عیش کی کوتاہی پر
یا خدا آئے تھے کیا شام و سحر دونوں ساتھ

اس نے پھیری نگۂ ناز یہ معلوم ہوا
کھنچ گیا سینے سے تیر اور جگر دونوں ساتھ

غم کو دی دل نے جگہ دل کو جگہ پہلو نے
ایک گوشے میں کریں گے یہ بسر دونوں ساتھ

اس کو روکوں میں الٰہی کہ سنبھالوں اس کو
کہ تڑپنے لگے دل اور جگر دونوں ساتھ

ناز بڑھتا گیا بڑھتے گئے جوں جوں گیسو
بلکہ لینے لگے اب زلف و کمر دونوں ساتھ

تجھ سے مطلب ہے نہیں دنیا و عقبیٰ سے غرض
تو نہیں جب تو اجڑ جائیں یہ گھر دونوں ساتھ

بات سننا نہ کسی چاہنے والے کی کبھی
کان میں پھونک رہے ہیں یہ گہر دونوں ساتھ

آندھیاں آہ کی بھی اشک کا سیلاب بھی ہے
دیتے ہیں دل کی خرابی کی خبر دونوں ساتھ

کیا کہوں زہرہ و خورشید کا عالم اے نظمؔ
نکلے خلوت سے جوں ہی وقت سحر دونوں ساتھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse