کس قدر دل ربا نما ہے دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس قدر دل ربا نما ہے دل
by قلق میرٹھی

کس قدر دل ربا نما ہے دل
خانۂ غیر ہو گیا ہے دل

ہر گھڑی کیوں نہ زلزلے میں رہے
مشہد حسرت و وفا ہے دل

موت بھی سہل کچھ نہیں اپنی
کس لیے طاقت آزما ہے دل

مصلحت اس میں ہو نہ کوئی کاش
دشمن جان ہو گیا ہے دل

سب سے لگ چلنے کی ہوئی ہے کھو
کس قدر صرف آشنا ہے دل

شیخ صنعاں کا یاد ہے قصہ
سخت کافر بری بلا ہے دل

اپنی حالت میں مبتلا ہوں آپ
دل ربا جاں ہے جاں ربا ہے دل

بل بے واماندگی کی تیز روی
جیسے جانے پہ آ گیا ہے دل

کس جفا کار کی وفا ہے جاں
کس ستم کش کا مدعا ہے دل

تیری الفت کا نقد داغ جگر
میری حسرت کا خوں بہا ہے دل

کہیے کس سے لگا لیا لگا
اے قلقؔ کیوں کے لگ چلا ہے دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse