Jump to content

کس طرح چین سے دم بھر شب فرقت میں رہے

From Wikisource
کس طرح چین سے دم بھر شب فرقت میں رہے
by راجہ نوشاد علی خان
324380کس طرح چین سے دم بھر شب فرقت میں رہےراجہ نوشاد علی خان

کس طرح چین سے دم بھر شب فرقت میں رہے
ہائے وہ دل جو ترے وصل کی حسرت میں رہے

ہم پس مرگ بھی بیتابیٔ فرقت میں رہے
کبھی باہر نکل آئے کبھی تربت میں رہے

تیرگی اب نہ ہماری شب فرقت میں رہے
ان کی زلفوں میں رہے غیر کی تربت میں رہے

کوئے قاتل میں رہے ہم یہ اذیت میں رہے
نیم بسمل کی طرح شوق شہادت میں رہے

صبح تک مجھ سے وہ لپٹا شب وصلت میں رہے
رات بھر آج اثر جذب محبت میں رہے

غیر کے اشکوں سے دھوئیں تو نہ دامن سے چھٹے
اتنی شوخی تو مرے خون کی رنگت میں رہے

رنگ ہلکا سا ہو جن پھولوں کا وہ پہنو تم
کچھ تکلف بھی مری جان نزاکت میں رہے

غیر کے ساتھ وہ جب پھول چڑھانے آئے
ہم بہت دل کو سنبھالے ہوئے تربت میں رہے

تیری سرکار میں انصاف یہی ہے اے عشق
آرزو کوئی نکالے کوئی حسرت میں رہے

ذبح کے وقت وہ زانو پہ مرا سر رکھ لے
کچھ تو آرام کا پہلو بھی اذیت میں رہے

دم خندہ در دندانں کا اگر عکس پڑے
کچھ چمک بھی ترے رخسار کی رنگت میں رہے

لطف کیا پائے ہیں ہنس بول کے ہم نے تم نے
گل و بلبل کی طرح باغ محبت میں رہے

پوچھیں احوال مرا وہ تو یہ کہنا قاصد
شب کو بے چین بہت درد کی شدت میں رہے

دل نہ قابو میں رہا دیکھ کے صورت ان کی
غش سے فرصت ہوئی ہم کو تو حیرت میں رہے

میں تو گھبرا کے چلا ہوں کسی کوچے کی طرف
بیکسی آ کے مرے گھر شب فرقت میں رہے

بد گماں ہوں میں دکھائے نہ کسی کو صورت
یا مرے دل میں رہے یا کوئی خلوت میں رہے

رخ روشن پہ جو تم زلف سیہ بکھرا دو
پھر نہ کچھ خوف سحر کا شب وصلت میں رہے

بعد مردن نہ جگہ پائی کسی کوچے میں
مفت برباد حسینوں کی محبت میں رہے

مری تربت سے لپٹ کر یہ کسی کا کہنا
آپ اب حشر تلک وصل کی حسرت میں رہے

زانوئے حور پہ سویا کئے سر رکھے ہوئے
ترے کشتے بھی بڑی عیش سے تربت میں رہے

بعد مرنے کے کھلی ہیں جو ہماری آنکھیں
ہے اشارہ ترے دیدار کی حسرت میں رہے

دھجیاں شیخ کی اس طرح اڑاؤ رندو
ایک بھی تار نہ دستار فضیلت میں رہے

بے نقاب آ کے جو وہ قبر پہ غم کرتے ہیں
چاہتے ہیں کہ مری نعش نہ تربت میں رہے

کبھی دل تھام کے بیٹھے کبھی گھبرا اٹھے
کیا کہیں آپ سے کیوں کر شب فرقت میں رہے

ذبح کرتا کوئی زانو سے دبا کر سینہ
ہائے مشتاق شہادت اسی حسرت میں رہے

خوش نصیبی ہے جو پھرتا ہوں ترے کوچہ میں
آرزو ہے یہی گردش مری قسمت میں رہے

غیر کی قبر پہ وہ پھول چڑھایا کئے روز
آسرا ہم بھی لگائے ہوئے تربت میں رہے

حضرت شیخ جو میخانے میں آئیں نوشادؔ
ایک بھی تار نہ دستار فضیلت میں رہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.