کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
by مرزارضا برق

کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
ہم جا نہیں سکتے انہیں آنا نہیں ملتا

پھرتے ہیں وہاں آپ بھٹکتی ہے یہاں روح
اب گور میں بھی ہم کو ٹھکانا نہیں ملتا

بدنام کیا ہے تن انور کی صفا نے
دل میں بھی اسے راز چھپانا نہیں ملتا

دولت نہیں کام آتی جو تقدیر بری ہو
قارون کو بھی اپنا خزانا نہیں ملتا

آنکھیں وہ دکھاتے ہیں نکل جائے اگر بات
بوسہ تو کہاں ہونٹ ہلانا نہیں ملتا

طاقت وہ کہاں جائیں تصور میں جو اے برقؔ
برسوں سے ہمیں ہوش میں آنا نہیں ملتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse