کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں
by امداد علی بحر

کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں
وہ کشتنی ہوں میں کہ کسی کو ترس نہیں

زاہد کسی وصال صنم کی ہوس نہیں
پتھر کا بت ہے تو کہ تجھے حس و مس نہیں

وہ ناتواں ہوں کہ مرے دل کو ہے یقیں
آندھی کی جھونکے چلتے ہیں باد نفس نہیں

جب تک کہ تم نہ آؤ گے رگڑوں گا ایڑیاں
میں بھی ہوں سخت جان جو تم کو ترس نہیں

ضبط فغاں سے عضو بدن گھل چلے تمام
میں کاروان ریگ رواں ہوں جرس نہیں

دنیا کی نعمتوں سے یہ سیری ہے روح کو
بوسہ بھی یار دے تو کہوں میں ہوس نہیں

کچھ تو ہماری رونے میں تخفیف ہو گئی
بارش جو اگلے سال تھی اب کی برس نہیں

پروانہ و چراغ پر آتا ہے مجھ کو رشک
کس طرح تم سے اڑ کے لپٹ جاؤں بس نہیں

اے شہسوار اس کا چمکنا دلیل ہے
آہوئے خاوری ہے یہ تیرا فرس نہیں

ہم مے کشوں کی بزم میں ہے بے تکلفی
کچھ دانہ ہائے سبحہ صفت پیش و پس نہیں

بیتابیاں یہی ہیں تو اک دن نجات ہے
صیاد یا تو میں ہی نہیں یا قفس نہیں

اپنے لیے ہے مرگ گلوں کی مفارقت
ہے گنبد مزار ہمارا قفس نہیں

اے بحرؔ اس مقام پر اٹکا ہے جا کے دل
پائے خیال کی بھی جہاں دسترس نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse