کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا
by محمد علی جوہر

کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا
کیا ہوا جو آج یوں جامے سے باہر ہو گیا

میرا شہرہ آج اک عالم میں گھر گھر ہو گیا
تیرے ہاتھوں مجھ کو قاتل یہ میسر ہو گیا

کیوں نہیں ملتا ابھی تک تشنہ لب ہیں بادہ خوار
کیا ترا ساغر بھی ساقی جام کوثر ہو گیا

اس قدر وحشت بھی اے دست جنوں کس کام کی
تیرے ہاتھوں میرا جینا بھی تو دوبھر ہو گیا

جوش وحشت کا ارادہ تھا کہ عریاں ہی رہے
بارے مر کر اک کفن مجھ کو میسر ہو گیا

اس کی رسوائی کا بھی آیا نہ تجھ کو کچھ خیال
کس قدر بے باک تو اے دیدۂ تر ہو گیا

مژدہ اے گنج شہیداں تیرے بھی دن پھر گئے
آج دل برداشتہ دنیا سے جوہرؔ ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse