کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
Appearance
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی
رکھنا نہ تھا قدم یاں جوں باد بے تامل
سیر اس جہاں کی رہرو پر تو نے سرسری کی
شبہا بحال سگ میں اک عمر صرف کی ہے
مت پوچھ ان نے مجھ سے جو آدمی گری کی
پائے گل اس چمن میں چھوڑا گیا نہ ہم سے
سر پر ہمارے اب کے منت ہے بے پری کی
پیشہ تو ایک ہی تھا اس کا ہمارا لیکن
مجنوں کے طالعوں نے شہرت میں یاوری کی
گریے سے داغ سینہ تازہ ہوئے ہیں سارے
یہ کشت خشک تو نے اے چشم پھر ہری کی
یہ دور تو موافق ہوتا نہیں مگر اب
رکھیے بنائے تازہ اس چرخ چنبری کی
خوباں تمہاری خوبی تا چند نقل کریے
ہم رنجہ خاطروں کی کیا خوب دلبری کی
ہم سے جو میرؔ اڑ کر افلاک چرخ میں ہیں
ان خاک میں ملوں کی کاہے کو ہمسری کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |