کس بری ساعت سے خط لے کر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس بری ساعت سے خط لے کر گیا
by شاد عظیم آبادی

کس بری ساعت سے خط لے کر گیا
نامہ بر اب تک نہ آیا مر گیا

جاتے ہی دل اس گلی میں مر گیا
مرنے والا بے وفائی کر گیا

دل تو جانے کو گیا لیکن مجھے
اس بھری محفل میں رسوا کر گیا

حسرتیں تھیں جینے والی جی گئیں
مرنے والا تھا دل اپنا مر گیا

غم کی لذت ابتدا میں تھی مگر
اس قدر کھایا کہ اب جی بھر گیا

ہر نوالہ اس کا اب تو تلخ ہے
عمر نعمت تھی مگر جی بھر گیا

کیا کہوں احوال اٹھتی بزم کا
پہلے مینا بعد کو ساغر گیا

دل نے اک دن بھی نہ دیکھا تجھ کو آہ
اس گلی تک خواب میں اکثر گیا

مرنے والے دل تجھے اب کیا کہوں
خیر بخشا میں نے جو کچھ کر گیا

کیا کہوں ان آنسوؤں کا زور و شور
آنکھیں جھپکی تھیں کہ چلو بھر گیا

دل گلہ کرتا تھا خوب اس شوخ کا
تذکرہ محشر کا سن کر ڈر گیا

جس جگہ دارا کو بھیجا تھا وہیں
کچھ دنوں کے بعد اسکندر گیا

جس کا کہلاتا ہے واں تھی کیا کمی
اے گدا کیوں مانگنے دردر گیا

دل نے سبقت کی حواس و صبر پر
پہلے سلطاں بعد کو لشکر گیا

منہ سے نکلا تھا کہ پہنچا عرش پر
نالۂ دل نام اونچا کر گیا

دل یہ امڈا مے سے خالی دیکھ کر
جام اشکوں سے لبالب بھر گیا

گر نہ جائے خاک پر قطرہ کوئی
بس بس اے ساقی کہ ساغر بھر گیا

مے کشو ماتم کرو اب شادؔ کا
ہائے کیا مے خوار رحلت کر گیا

شادؔ کیا کچھ کم ہیں دو کم ساٹھ سال
زندگی سے بس دل اپنا بھر گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse