کسی گمان و یقین کی حد میں وہ شوخ پردہ نشیں نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی گمان و یقین کی حد میں وہ شوخ پردہ نشیں نہیں ہے
by آرزو لکھنوی

کسی گمان و یقین کی حد میں وہ شوخ پردہ نشیں نہیں ہے
جہاں نہ سمجھو اسی جگہ ہے جہاں سمجھ لو وہیں نہیں ہے

تمہارا وعدہ ہے کیسا وعدہ کہ جس کا دل کو یقیں نہیں ہے
نگین بے نقش تو ہزاروں یہ نقش ہے اور نگیں نہیں ہے

تصوروں کے فریب اٹھا کر مشاہدہ وہم بن رہا ہے
نظر نے کھائے ہیں اتنے دھوکے کہ دیکھ کر بھی یقیں نہیں ہے

تلون اک جزر و مد ہے خود ہی تھپیڑوں میں آ پھنسی ہے کشتی
خبر ہے مدت کے ڈوبے دل کی کہ آج تک تہہ نشیں نہیں ہے

یہ کہتی ہے گردش زمانہ قدم تھمیں گے نہ اب کسی جا
ہے یہ بھی اک آسماں کا ٹکڑا تری گلی کی زمیں نہیں ہے

وفا کی حامی حمیت ان کی حریف امید غیرت ان کی
نگاہیں اقرار کر رہی ہیں زباں پہ لیکن نہیں نہیں ہے

ہوا جو اک دل کا داغ روشن تو ہو گئے کل چراغ روشن
خیال روشن دماغ روشن بس اب اندھیرا کہیں نہیں ہے

سرشک خونیں کا کل فسانہ لپیٹ رکھا ہے اک ورق میں
نچوڑنے پر لہو نہ ٹپکے تو آستیں آستیں نہیں ہے

ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں
چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے

مجھی پہ کیا ہے نہیں ہے کس میں یہ بت تراشی یہ بت پرستی
اگر نہ حسن نظر سے دیکھو تو کوئی بھی پھر حسیں نہیں ہے

رہ اطاعت میں آرزوؔ نے قدم قدم پہ کئے ہیں سجدے
جو آپ کا نقش پا نہیں ہے وہ اس کا نقش جبیں نہیں ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse