کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
by مضطر خیرآبادی

کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
یہی پتھر پئے تعویذ تربت لے کے اٹھیں گے

گئے وہ دن کہ ہم گرتے تھے اور ہمت اٹھاتی تھی
وہ دن آیا کہ اب ہم اپنی ہمت لے کے اٹھیں گے

اگر دل ہے تو تیرا درد الفت ساتھ جائے گا
کلیجا ہے تو تیرا داغ حسرت لے کے اٹھیں گے

یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے

خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے

مجھے اپنی گلی میں دیکھ کر وہ ناز سے بولے
محبت سے دبے جاتے ہیں حسرت لے کے اٹھیں گے

ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے
کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے

ترا راز محبت لے کے آئے لے کے جائیں گے
امانت لے کے بیٹھے ہیں امانت لے کے اٹھیں گے

ہمیں اس نام جپنے کا مزا اس روز آئے گا
تمہارا نام جس دن زیر تربت لے کے اٹھیں گے

دم آخر ہم آنچل ان کا مضطرؔ کس طرح چھوڑیں
یہی تو ہے کفن جس کی بدولت لے کے اٹھیں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse