کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
by فانی بدایونی

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

مذاق تلخ پسندی نہ پوچھ اس دل کا
بغیر مرگ جسے زیست کا مزا نہ ملا

دبی زباں سے مرا حال چارہ ساز نہ کہہ
بس اب تو زہر ہی دے زہر میں دوا نہ ملا

خدا کی دین نہیں ظرف خلق پر موقوف
یہ دل بھی کیا ہے جسے درد کا خزانہ ملا

دعا گدائے اثر ہے گدا پہ تکیہ نہ کر
کہ اعتماد اثر کیا ملا ملا نہ ملا

ظہور جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا

تلاش خضر میں ہوں رو شناس خضر نہیں
مجھے یہ دل سے گلہ ہے کہ رہنما نہ ملا

نشان مہر ہے ہر ذرہ ظرف مہر نہیں
خدا کہاں نہ ملا اور کہیں خدا نہ ملا

مری حیات ہے محروم مدعائے حیات
وہ رہ گزر ہوں جسے کوئی نقش پا نہ ملا

وہ نامراد اجل بزم یاس میں بھی نہیں
یہاں بھی فانیؔ آوارہ کا پتا نہ ملا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse