کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی
by عیش دہلوی

کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی
چھپائے لاکھ خوشبو یا کوئی بدبو نہیں چھپتی

زباں پر جب تلک آتی نہیں البتہ چھپتی ہے
زباں پر جب کہ آئی بات اے گل رو نہیں چھپتی

یہاں تو تجھ کو سو پردے لگے ہیں اہل تقوی سے
بھلا رندوں سے کیوں اے دختر رز تو نہیں چھپتی

سلیقہ کیا کرے اس میں کوئی بیتابی جاں کو
چھپاؤ سو طرح جب دل ہو بے قابو نہیں چھپتی

حجاب اس میں کہاں ہے بے حجابی جس کی عادت ہو
چھپا کر لاکھ پیوے گر کوئی دارو نہیں چھپتی

رخ روشن کو تم کیوں چھوڑ کر زلفیں چھپاتے ہو
چمک رخ کی چھپائے سے تہ گیسو نہیں چھپتی

یہ ریش و جبہ و دستار زاہد کی بناوٹ ہے
طبیعت بے تکلف جس کی ہو یکسو نہیں چھپتی

کلام اپنا عبث تو اہل دانش سے چھپاتا ہے
جہاں میں عیشؔ طرز شاعر خوش گو نہیں چھپتی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.