کسی کی نرگس مخمور کچھ کہہ دے اشاروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کی نرگس مخمور کچھ کہہ دے اشاروں میں
by داغ دہلوی

کسی کی نرگس مخمور کچھ کہہ دے اشاروں میں
مزہ ہے رات دن چلتی رہے پرہیزگاروں میں

جنوں میں دیکھیے میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے
پڑی ہے آبلوں میں پھوٹ اور ایکا ہے خاروں میں

وہ شرمائی ہوئی آنکھیں وہ گھبرائی ہوئی باتیں
نکل کر گھر سے وہ گھرنا ترا امیدواروں میں

پلک اٹھتی نہیں میری طرف کیا تھک گئیں آنکھیں
ابھی تو ہو رہی تھیں غیر سے باتیں اشاروں میں

کوئی جنت کا خواہاں ہے کوئی کوثر کا طالب ہے
اڑا کرتی ہے بے پر کی ہمیشہ بادہ خواروں میں

جلانا داغؔ کا اچھا نہیں یہ دم غنیمت ہے
کہ ایسا با وفا اک آدھ نکلے گا ہزاروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse