کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار
by عابد علی عابد

کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار
سبھی کا چاک گریباں ہے دیکھیے کیا ہو

تمہیں خبر ہی نہیں اے طیور نغمہ سرا
یہی چمن یہی زنداں ہے دیکھیے کیا ہو

جہاں کشود نوا پر خزاں کے پہرے ہیں
وہیں بہار غزل خواں ہے دیکھیے کیا ہو

سبو اٹھا کہ یہ نازک مقام ہے ساقی
نہ اہرمن ہے نہ یزداں ہے دیکھیے کیا ہو

رواں ہے موج گل و لالہ موج خوں کی طرح
چمن شہید بہاراں ہے دیکھیے کیا ہو

درازی شب ہجراں سے مجھ کو خوف نہ تھا
کسی کی زلف پریشاں ہے دیکھیے کیا ہو

ہوا کا رنگ یہ ہے آشیاں تو ایک طرف
قفس بھی شاخ پہ لرزاں ہے دیکھیے کیا ہو

یہی ہے دل سے شکایت کہ میرا محرم راز
مجھی سے دست و گریباں ہے دیکھیے کیا ہو

ہمیں ہیں پیر مغاں کافروں کے اے عابدؔ
ہمیں کو دعویٰ ایماں ہے دیکھیے کیا ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse