کسی کو کیا خبر اے صبح وقت شام کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کو کیا خبر اے صبح وقت شام کیا ہوگا
by شاد عظیم آبادی

کسی کو کیا خبر اے صبح وقت شام کیا ہوگا
خدا جانے ترے آغاز کا انجام کیا ہوگا

گرفتاران گیسو پر نہیں کچھ منحصر ناصح
پھنسا ہے جو تعلق میں اسے آرام کیا ہوگا

عبث ہے زاہدوں کو مے کشی میں عذر ناداری
گرو رکھ لیں اسی کو جامۂ احرام کیا ہوگا

وہی رہ رہ کے گھبرانا وہی نا کار گر آہیں
سوا اس بات کے تجھ سے دل ناکام کیا ہوگا

اسے بھی جلد اٹھا کر طاق نسیاں کے حوالے کر
نہیں پیش نظر جب ختم تو ساقی جام کیا ہوگا

یہی ٹوٹے سبو مٹی کے کافی ہیں قناعت کر
بلوریں جام مے اے رند درد آشام کیا ہوگا

تقرب جن کو ہے ان کو بھی یک گونہ ہے مایوسی
یہ حالت ہے تو پھر دیدار تیرا عام کیا ہوگا

نہ پوچھو مفتیان شرع کا احوال جانے دو
تنفر کفر کو جس سے ہو وہ اسلام کیا ہوگا

سحر فرقت کی ہے اور غش پہ غش آتے ہیں عاشق کو
ابھی سے جب یہ حالت ہو گئی تا شام کیا ہوگا

ضعیفی میں تو شادؔ اللہ اکبر پی گیا خم تک
جوانی میں کہو یہ رند مے آشام کیا ہوگا

زمانہ شادؔ بے گاری میں کیوں آخر پھنساتا ہے
اپاہج کر دیا پیری نے مجھ سے کام کیا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse