کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
by حفیظ جونپوری

کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
اسی کو لوگ کہتے ہیں خیال خام ہو جانا

محبت سے جو پیش آئے کوئی ہو دوست یا دشمن
ہمیں تو ہر کسی کا بندۂ بے دام ہو جانا

خدا جانے کہ کیا ہوتا مآل اپنی محبت کا
بہت اچھا ہوا آغاز میں انجام ہو جانا

مٹانا ہو اگر دھبا ریا کاری کا اے زاہد
کسی کی بزم میں اک دن شریک جام ہو جانا

جہاں دیکھو وہاں کچھ ذکر ہے اپنی محبت کا
برا ہے آدمی کے واسطے بدنام ہو جانا

کرے گا رخنہ پیدا کوئی دن درباں کا ہنگامہ
قیامت ہے ترے در پر ہجوم عام ہو جانا

حفیظؔ ایسے مسلماں کا بھی کوئی دین و مذہب ہے
بتوں کی دوستی میں تارک اسلام ہو جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse