کسی کا ایک ہے دشمن تو دوست دار ہے ایک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کا ایک ہے دشمن تو دوست دار ہے ایک  (1920) 
by مسکین شاہ

کسی کا ایک ہے دشمن تو دوست دار ہے ایک
ہمارا ہجر عدو ایک وصل یار ہے ایک

جہاں میں شادی و غم سے نہیں ہے دور کوئی
خزاں عدو ہے مرا ایک اور بہار ہے ایک

خوشی نصیب نہیں ہم کو تابہ حشر کوئی
ہزار رنج ہیں ایک اور یہ دل فگار ہے ایک

بسان مرگ و حیات اہل دل کو عالم میں
ہمیشہ ایک ہے دل جس پہ غم سوار ہے ایک

ملا ہے حسن خداداد جن کو عالم میں
فدا جو ایک ہے ان پر تو جاں نثار ہے ایک

رہ وفا میں یہ ہے حال عاشقوں کا مدام
خراب ایک ہے شوریدہ سر تو خار ہے ایک

ملوگے ہم سے جو مسکیںؔ دوئی کو دور کرو
شمار ایک ہے گر دم ہے دو پہ تار ہے ایک

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse