کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
by وحشت کلکتوی

کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
ہزارہا نقش آرزو کے بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں

وفا مری معتبر ہے کتنی جفا وہ کر سکتے ہیں کہاں تک
جو وہ مجھے آزما رہے ہیں تو میں انہیں آزما رہا ہوں

کسی کی محفل کا نغمۂ نے محرک نالہ و فغاں ہے
فسانۂ عیش سن رہا ہوں فسانۂ غم سنا رہا ہوں

زمانہ بھی مجھ سے نا موافق میں آپ بھی دشمن سلامت
تعجب اس کا ہے بوجھ کیونکر میں زندگی کا اٹھا رہا ہوں

نہ ہو مجھے جستجوئے منزل مگر ہے منزل مری طلب میں
کوئی تو مجھ کو بلا رہا ہے کسی طرف کو تو جا رہا ہوں

یہی تو ہے نفع کوششوں کا کہ کام سارے بگڑ رہے ہیں
یہی تو ہے فائدہ ہوس کا کہ اشک حسرت بہا رہا ہوں

خدا ہی جانے یہ سادہ لوحی دکھائے گی کیا نتیجہ وحشتؔ
وہ جتنی الفت گھٹا رہے ہیں اسی قدر میں بڑھا رہا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse