کسی صورت عدو کی ترک الفت ہو نہیں سکتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی صورت عدو کی ترک الفت ہو نہیں سکتی
by فروغ حیدرآبادی

کسی صورت عدو کی ترک الفت ہو نہیں سکتی
ہمارے حال پر تیری عنایت ہو نہیں سکتی

کبھی تیرے سوا دل دوسرے پر آ نہیں سکتا
کسی پر اب مری مائل طبیعت ہو نہیں سکتی

بنی ہے مہر لب پیہم محبت اس ستم گر کی
بیاں اب داستان درد فرقت ہو نہیں سکتی

الٰہی میرا دل اس سنگ دل کا دل تو بن جائے
مری تقدیر گر دشمن کی قسمت ہو نہیں سکتی

یہ ہو سکتا ہے دنیا بھر کو چھوڑوں تیری خاطر سے
رقیب رو سیہ کی مجھ سے منت ہو نہیں سکتی

تصور میں بھی تم بار نزاکت سے نہیں آتے
تمہارے وصل کی اب کوئی صورت ہو نہیں سکتی

خدا کی شان ہے عشق عدو میں روتے پھرتے ہیں
جو کہتے تھے کبھی تاثیر الفت ہو نہیں سکتی

گھلایا ضعف نے ایسا فراق یار میں مجھ کو
تصور میں بھی قائم میری صورت ہو نہیں سکتی

حجاب آتا ہے تجھ کو دشمن مہر و وفا کہتے
کسی پردے میں اب تیری شکایت ہو نہیں سکتی

فروغؔ نیر تقدیر ضو بخش تمنا ہے
شب وصل ستم گر شام فرقت ہو نہیں سکتی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse