کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
by ریاض خیرآبادی

کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
چلو ہٹو بھی ہماری زبان سوکھ گئی

اک آہ گرم نے جھلسائے خوشۂ انجم
تمام کھیتی تری آسمان سوکھ گئی

قیامت اور وہ ہنگامہ پھر قیامت کا
لحد سے اٹھتے ہی دھڑکوں سے جان سوکھ گئی

رہا نہ بعد مرے ہائے کوئی آبلہ پا
پکارتے ہیں یہ کانٹے زبان سوکھ گئی

شب فراق کا آدھا نہیں رہا تن و توش
یہ میرے گھر جو ہوئی میہمان سوکھ گئی

ملا بھی ہم کو تو بے وقت اس طرح کھانا
کہ چاول اینٹھ گئے اور نان سوکھ گئی

بہت ہی پھولی ہوئی تھی یہ اپنی رنگت پر
جو دیکھا رنگ مرا زعفران سوکھ گئی

ہوائے گرم خزاں میں وہ رنگ و روپ کہاں
تھی عندلیب یوں ہی دھان پان سوکھ گئی

ریاضؔ یاد ہے ان کا وصال میں کہنا
خدا کے واسطے چھوڑو زبان سوکھ گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse