کسی سے عشق دشمن کا گلہ کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی سے عشق دشمن کا گلہ کیا
by ہاجر دہلوی

کسی سے عشق دشمن کا گلہ کیا
نہیں جب ربط تو پھر مدعا کیا

ہر اک شے میں تجھی کو دیکھتے ہیں
ہمارے واسطے اچھا برا کیا

ضرورت کیا ہے سمجھے کون زاہد
روا کیا ہے یہاں پر ناروا کیا

اسے ظالم سمجھ کر دل دیا تھا
تو پھر اب کم نگاہی کا گلہ کیا

غم دنیا کی مانا ہے دوا عشق
مگر پھر درد الفت کی دوا کیا

بہت پچھتائے تم سے دل لگا کر
بجز رنج و الم ہم کو ملا کیا

نہ ہوگی کیا کبھی امید پوری
نہ ہوگا مہرباں وہ بے وفا کیا

سبھی انسان ہیں اللہ کے بندے
جہاں میں آشنا نا آشنا کیا

فقط اک دل ہے وہ ہے نذر تیری
ہمارے پاس ہے اس کے سوا کیا

نگاہ ناز سے دل بچ بھی جائے
مگر گھائل نہ کر دے گی ادا کیا

لٹا کر چل دیا گھر بار ہاجرؔ
اسے بیٹھے بٹھائے یہ ہوا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse