کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
by نظم طباطبائی

کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
مجھے اجل کے بھی آنے کا اعتبار نہیں

جواب نامہ کا قاصد مزار پر لایا
کہ جانتا تھا اسے تاب انتظار نہیں

یہ کہہ کے اٹھ گئی بالیں سے میری شمع سحر
تمام ہو گئی شب اور تجھے قرار نہیں

جو تو ہو پاس تو حور و قصور سب کچھ ہو
جو تو نہیں تو نہیں بلکہ زینہار نہیں

خزاں کے آنے سے پہلے ہی تھا مجھے معلوم
کہ رنگ و بوئے چمن کا کچھ اعتبار نہیں

غزل کہی ہے کہ موتی پروئے ہیں اے نظمؔ
وہ کون شعر ہے جو در شاہوار نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse