کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو
by صفی اورنگ آبادی

کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو
کبھی تو بھول کر آؤ کبھی تو پوچھ کر دیکھو

نہ دیکھو دوست بن کر تم تو دشمن کی نظر دیکھو
خفا ہو کر بگڑ کر روٹھ کر دیکھو مگر دیکھو

نہیں بھرتی طبیعت لاکھ دیکھو عمر بھر دیکھو
خدا کی شان ہے ایسے بھی ہوتے ہیں بشر دیکھو

کسی کو جب سے دیکھا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا
ہوئی میری نظر کو دوستو کس کی نظر دیکھو

ترستی ہیں یہ آنکھیں دیکھنے کو دل تڑپتا ہے
زیادہ سے زیادہ مختصر سے مختصر دیکھو

مقدر سے نبھی تم ایک گویا بھولے بھالے تھے
کوئی ظالم سے ظالم فتنہ گر سے فتنہ گر دیکھو

کہی ہیں ہم نشینو دل لگی میں تم نے جو باتیں
انہیں سچ مچ پہنچ جائے نہ یہ جھوٹی خبر دیکھو

پھر اس پر نکتہ چیں ہے نکتہ داں ہے شیخ لوگوں میں
اناڑی پڑھ رہا ہے دخت رز کو دخت زر دیکھو

کوئی بیتاب کوئی مست کوئی چپ کوئی حیراں
تری محفل میں گویا اک تماشا ہے جدھر دیکھو

تمہاری بزم بات انسانیت کی پھر رقیبوں میں
بھرے ہیں آدمی کی صورتوں کے جانور دیکھو

نہ ہو جو بندہ پرور بندگی کو بندگی اس کی
جناب دل خدا رزاق کوئی اور گھر دیکھو

نہیں از روئے قانون محبت جرم نظارہ
تو پھر کیوں ہیں جناب دل اگر دیکھو مگر دیکھو

اسے دیکھا ہے جس کے دیکھنے کو لوگ مرتے ہیں
نظر بازو ہماری بھی ذرا حد نظر دیکھو

صفیؔ کو شاعری سے مل گئی ہر دل عزیزی بھی
دروغ مصلحت آمیز بھی ہے کیا ہنر دیکھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse