کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو
کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو
کبھی تو بھول کر آؤ کبھی تو پوچھ کر دیکھو
نہ دیکھو دوست بن کر تم تو دشمن کی نظر دیکھو
خفا ہو کر بگڑ کر روٹھ کر دیکھو مگر دیکھو
نہیں بھرتی طبیعت لاکھ دیکھو عمر بھر دیکھو
خدا کی شان ہے ایسے بھی ہوتے ہیں بشر دیکھو
کسی کو جب سے دیکھا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا
ہوئی میری نظر کو دوستو کس کی نظر دیکھو
ترستی ہیں یہ آنکھیں دیکھنے کو دل تڑپتا ہے
زیادہ سے زیادہ مختصر سے مختصر دیکھو
مقدر سے نبھی تم ایک گویا بھولے بھالے تھے
کوئی ظالم سے ظالم فتنہ گر سے فتنہ گر دیکھو
کہی ہیں ہم نشینو دل لگی میں تم نے جو باتیں
انہیں سچ مچ پہنچ جائے نہ یہ جھوٹی خبر دیکھو
پھر اس پر نکتہ چیں ہے نکتہ داں ہے شیخ لوگوں میں
اناڑی پڑھ رہا ہے دخت رز کو دخت زر دیکھو
کوئی بیتاب کوئی مست کوئی چپ کوئی حیراں
تری محفل میں گویا اک تماشا ہے جدھر دیکھو
تمہاری بزم بات انسانیت کی پھر رقیبوں میں
بھرے ہیں آدمی کی صورتوں کے جانور دیکھو
نہ ہو جو بندہ پرور بندگی کو بندگی اس کی
جناب دل خدا رزاق کوئی اور گھر دیکھو
نہیں از روئے قانون محبت جرم نظارہ
تو پھر کیوں ہیں جناب دل اگر دیکھو مگر دیکھو
اسے دیکھا ہے جس کے دیکھنے کو لوگ مرتے ہیں
نظر بازو ہماری بھی ذرا حد نظر دیکھو
صفیؔ کو شاعری سے مل گئی ہر دل عزیزی بھی
دروغ مصلحت آمیز بھی ہے کیا ہنر دیکھو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |