کسی حسرت زدہ نے خود کشی منظور کی دل سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی حسرت زدہ نے خود کشی منظور کی دل سے
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

کسی حسرت زدہ نے خود کشی منظور کی دل سے
صدا لبیک کی سن کر زمین کوئے قاتل سے

خدا کے واسطے دم بھر تو اے باد اجل تھم جا
کہ لے لوں کچھ ہوا میں دامن شمشیر قاتل سے

ٹھہرنا او دل بے تاب پھر تو بھی تو سینے میں
نکل آئے تڑپ کر موج جب آغوش ساحل سے

زمیں سے آسماں تک میری بیتابی کا چرچا ہے
سبق لیتی ہے بجلی آ کے میرے قلب بسمل سے

کوئی تدبیر سوچو تاکہ دل آ جائے قابو میں
کہیں میں قید ہو سکتا ہوں ان طوق و سلاسل سے

ابھی دیکھو تو میری مشق کس حد تک پہنچتی ہے
بنا لوں گا کبھی تم کو بھی اپنا جذب کامل سے

گرا تھا قطرۂ اول جو میرے خون ناحق سے
اٹھی تھی سرخ اک آندھی زمین کوئے قاتل سے

وہ اب آتے ہی ہوں گے اور یاں پر آ کے بیٹھیں گے
خداوندا یہ باتیں کب تلک عالمؔ کرے دل سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse